سورة الأنبياء - آیت 3

لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان کے دل کھیل میں پڑے ہیں اور ظالموں نے چپکے چپکے مصلحت کی (کہتے ہیں) یہ تو تم ہی جیسا ایک آدمی ہے ، پھر تم اپنی آنکھوں دیکھے جادو میں کیوں پڑتے ہو ؟ (ف ١) ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(٣) کفار مکہ کا خیال تھا کہ اللہ کا رسول کوئی فرشتہ ہی ہوسکتا ہے اس لیے اگر کوئی آدمی نبوت کا دعوی کرے گا اور اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرے گا تو وہ جادوگر ہوگا اور اس کا معجزہ دراصل جادو ہوگا، اسی لیے انہوں نے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے آپس میں سرگوشی کی اور پھر لوگوں سے کہا کہ محمد تمہارے ہی جیسا انسان ہے اور اس کی باتیں جادو کے قبیل کی ہیں، پھر کیوں تم لوگ اس کی پیروی کرتے ہو۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں : کافروں کے ذہن سے یہ بات جاتی رہی کہ تشریعی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ انسان کی رہنمائی کے لیے انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا جائے۔