سورة البقرة - آیت 17

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی جب اس کا گرد روشن ہوا تو خدا ان کی روشنی کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ نہیں (ف ٢) دیکھتے ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

34: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں، اور اس سے پہلے کی دیگر آسمانی کتابوں میں مثالوں کے ذریعہ بہت سے حقائق واضح کیے ہیں۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )، دیگر انبیاء کرام اور حکمائے عالم کے کلام میں مثالیں بہت ملتی ہیں۔ اس لیے کہ مثالوں کے ذریعہ بہت سے پوشیدہ معانی کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سے حقائق سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ غائب حاضر بن کر سامنے آجاتا ہے اور دشمن کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ وَما يَعْقِلُها إِلاَّ الْعالِمُونَĬ کہ یہ مثالیں ہم لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کرتے ہیں، اور انہیں علم والے ہی سمجھتے ہیں۔( العنکبوت : 43)۔ 35: منافقین کی حقیقت اور ان کی صفات کو مزید اجاگر کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کی ایک اور مثال بیان کی اور بتایا کہ ان منافقین کی مثال اس آدمی کی ہے، جو کسی جنگل میں شدید ظلمت و تاریکی میں پھنس گیا، اسے روشنی کی شدید ضرورت تھی، اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا کہ آگ روشن کرتا اور روشنی حاصل کرتا۔ اس نے کسی دوسرے سے چنگاری لے کر آگ روشن کی، جب اس کے ارد گرد کا ماحول روشن ہوگیا، وہ جگہ دیکھی جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں کے خطرات اور پھر امن و امان کے اسباب دیکھے، اس آگ سے فائدہ اٹھایا، اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوئی، اور اسے یہ خیال ہونے لگا کہ یہ آگ اور یہ روشنی تو اس کے اختیار میں ہے، تو اچانک اللہ نے اس کی آگ بجھا دی، اس کی روشنی چھین لی، اس کی خوشی رخصت ہوگئی، اور گھٹا ٹوپ تاریکی چھا گئی، آگ کی سوزش رہ گئی اور روشنی رخصت ہوگئی، اب وہ تھا اور کئی قسم کی تاریکیاں تھیں جو اسے گھیرے میں لیے ہوئی تھیں، رات کی تاریکی، بادل کی تاریکی، بارش کی تاریکی، اور روشنی جانے کے بعد کی تاریکی، ذرا اندازہ کیجیے کہ ایسے آدمی کا کیا حال ہوگا؟ یہی حال منافقین مدینہ کا بھی تھا انہوں نے مسلمانوں کے ایمان کی آگ سے اپنی آگ روشن کی، ان کے پاس اپنے ایمان کی آگ نہ تھی۔ کچھ دیر اس سے فائدہ اٹھایا، ان کی جانیں محفوظ ہوگئیں، ان کے اموال بچ گئے اور دنیا میں یک گونہ سکون ملا۔ 36: وہ اسی حال میں تھے کہ موت نے انہیں دبوچ لیا، جس جھوٹے نور سے انہیں فائدہ پہنچ رہا تھا وہ کھو گیا، اور غم و حرماں نصیبی اور عذاب نے انہیں آ گھیرا، قبر کی تاریکی، کفر کی تاریکی، نفاق کی تاریکی، مختلف الانواع گناہوں کی تاریکی اور عیاذاً باللہ۔ اس کے بعد جہنم کی آگ کی تاریکی نے ہر طرف سےا نہیں گھیرے میں لے لیا۔ اس سے بڑھ کر کیا بد نصیبی ہوسکتی ہے؟