سورة البقرة - آیت 237

وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر ہم بستر ہونے سے پہلے ان کو طلاق دو اور ان کا مہر تم مقرر کرچکے ہو تو جو تم نے مقرر کیا ہے اس کا نصف دینا چاہئے مگر جبکہ وہ عورتیں یا وہ شخص جس کے ہاتھ نکاح کی گرہ تھی معاف کر دے ۔ اور تم مرد اگر معاف کرو تو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھلا دو ، بیشک جو تم کرتے ہو خدا دیکھتا ہے ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

331: اس میں ایسی عورت کے طلاق کا حکم بیان کیا جا رہا ہے، جس کے ساتھ شوہر نے مباشرت نہ کی ہو، لیکن اس کی مہر مقرر ہوچکی ہو۔ اللہ نے فرمایا کہ اسے نصف مہر دی جائے گی۔ یہ بھی جائز ہے کہ عورت معاف کردے اور کہے کہ اس نے مجھے دیکھا نہیں، اور نہ میں نے اس کی خدمت کی، نہ مجھ سے مستفید ہوا، تو میں کیسے اس سے کوئی رقم لے لوں، یا شوہر نے اگر مہر کی پوری رقم ادا کردی تھی تو وہ معاف کردے اور عورت سے نصف مہر واپس نہ لے، یا اگر لڑکی نابالغ ہے یا اسے معاملہ کرنا نہیں آتا، تو اس کا ولی شوہر سے نصف مہر نہ لے اور معاف کردے، اور اللہ نے فرمایا کہ بہرحال معاف کردینا تقوی کے زیادہ قریب اور عمل احسان ہے اس کے بعد اللہ نے ہر ایک کو معاف کردینے کی ترغیب دلائی کہ جو معاف کردے گا وہ دوسرے سے بہتر ہوگا۔