وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
اور وہ (یہود) تجھ سے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں ، تو کہہ ، اب اس کا ذکر میں تمہارے سامنے پڑھتا ہوں ۔
(51) سورۃ الاسراء میں روح سے متعلق لکھتے وقت بتایا جاچکا ہے کہ کفار قریش نے یہود مدینہ کے اشارے پر نبی کریم سے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تھا، روح سے متعلق سورۃ الاسراء آیت (85) میں لکھا جا چکا ہے، اور اصحابہ کہف کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اس سورت کی ابتدا میں آچکا ہے اب ذوالقرنین کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ ذوالقرنین کون تھا؟ اس کے بارے میں مفسرین اور مورخین کے بہت سارے اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ وہ اسکندر بن فیلقوس یونانی تھا جس نے پوری دنیا کو فتح کیا تھا اور جس نے اسکندریہ شہر آباد کیا تھا، قرطبی نے سہیلی سے نقل کیا ہے کہ اسکندر نام کے دو شخص گزرے ہیں، ایک ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا جس نے ان کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا تھا اور دوسرا اسکندریہ مقدونی یونانی تھا جس کا زمانہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سو سال پہلے بتایا جاتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے ازرقی وغیرہ کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن میں مذکور ذوالقرنین وہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں پایا گیا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الرد علی المنطقیین میں لکھا ہے کہ اسکندر بن فیلبس یونانی وہ نہیں ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ذوالقرنین کے نام سے آیا ہے، اس لیے کہ یہ مشرک تھا اور اس کا وزیر ارسطو اور اس کی پوری قوم مشرک تھی، اور ذوالقرنین اللہ کا نیک اور مومن و موحد بندہ تھا اور اس کا زمانہ بہت پہلے کا ہے۔ حافظ ابن القیم نے اغاثۃ اللھفان میں فلاسفہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے بادشاہوں میں سے ایک اسکندر مقدونی تھا جو فیلبس کا بیٹا تھا اور یہ وہ اسکندر ذوالقرنین نہیں تھا جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے بلکہ دونوں کے درمیان کئی صدی کا فرق ہے اور دونوں کے دین میں بھی بہت زیادہ تباین تھا۔ ذوالقرنین کا ایک نیک، صالح اور موحد بندہ تھا اور زندگی بھر بت پرستوں کے خلاف جنگ کرتا رہا اور اس مقصد کے لیے زمین کے مشرق و مغرب کنارو تک پہنچ گیا، اسی نے یاجوج ماجوج کو روکنے کے لیے دیوار بنائی تھی، بعض لوگوں نے اسے نبی بتایا ہے، اور اسے ذوالقرنین اس لیے کہا گیا کہ وہ فارس و روم دونوں کا بادشاہ تھا، یا اس لیے کہ اس کے سر پر بال کی دو چوٹیاں تھیں، یا اس لیے کہ اس نے مشرق و مغرب پر حکمرانی کی تھی اور اسکندر مقدونی مشرک تھا اور بتوں کی پرستش کرتا تھا اور اس کی مملکت کے لوگ بھی مشرک تھے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ کفار قریش آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں اس کے بارے میں قرآن کریم کی وہ آیتیں تمہیں سناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہیں۔