يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
مومنو ! دین اسلام میں پورے طور پر داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (ف ٢)
298: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اسلام کو اس کے تمام جزئیات و تفاصیل کے ساتھ قبول کریں، ان کی طرح نہ ہوجائیں جو خواہش نفس کے غلام بن گئے کہ جو بات ان کی خواہش کے مطابق ہوئی اسے لے لیا، اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئی اسے چھوڑ دیا، اسلام لانے کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کی ہر خواہش دین کے تابع ہو، جن اعمال خیر کو وہ کرسکتا ہے انہیں کرے، اور جنہیں نہیں کرسکتا ہے، انہیں بشرط قدرت و امکان کرنے کی نیت رکھے، تاکہ اسے نیت کا اجر ملے۔ آدمی پورے اسلام پر اسی وقت گامزن ہوسکتا ہے جب شیطان کی مخالفت کو اپنی زندگی کا شیوہ بنا لے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کی اتباع سے منع فرمایا، اور تنبیہ کی کہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ بات تو تمہیں معلوم ہے، اس لیے کہ اسی نے تو تمہارے باپ آدم کے ساتھ کھلی عداوت کی تھی، اور جنت سے نکلوایا تھا۔ اسی بات کی مزید تاکید کے لیے اللہ نے آگے فرمایا کہ اگر اللہ کی طرف سے واضح دلائل آجانے کے باوجود تم شیطان کی اتباع کرتے ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی قدرت والا ہے، اس کے انتقام سے کوئی بچ نہیں سکتا، اور حکمت والا ہے، اس کا کوئی بھی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، اس کے قہر و عذاب سے بچنا ناممکن ہے۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ آیت میں ایمان والوں سے مراد اہل کتاب کے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو تو قبول کرلیا تھا، لیکن تورات کے بعض احکام و شرائع کو بھی اب تک گلے لگا رکھا تھا، انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ پورے دین محمدی کو قبول کرو، اس میں سے کسی بھی حکم کو نہ چھوڑو، اور تورات پر اب صرف تمہارا ایمان لانا کافی ہوگا۔