قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا
تو کہہ (اے اہل مکہ) تم قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ بےشک وہ جنہیں قرآن سے پہلے علم دیا گیا ہے ہے (اہل کتاب) جب یہ قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں پر گر کر سجدہ کرتے ۔
(69) نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو احساس دلائیں کہ اللہ اور رسول کی نگاہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے نہ ان کا ایمان لانا کوئی بڑی اہم بات ہے اور نہ ہی ان کے کفر و عناد سے کسی اور کو کوئی نقصان پہنچے گا، اگر وہ اللہ پر ایمان نہیں لائیں گے اور قرآن کریم کو اس کی کتاب تسلیم نہیں کریں گے، تو کیا ہوتا ہے ان سے بہت ہی اچھے لوگ، یعنی اہل کتاب کے نیک علما مثلا عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی اور نجاشی وغیرہم اسے اللہ کی کتاب اور نبی کریم (ﷺ) کو وہی رسول مان چکے ہیں جن کی بشارت تورات و انجیل میں دی جاچکی ہے، اور ان علمائے صالحین کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنی ٹھڈیوں اور سروں کے بل سربسجود ہوجاتے ہیں کہ اس نے ان پر یہ احسان کیا کہ انہوں نے نبی کریم (ﷺ) کا زمانہ پایا، اور ان پر اور قرآن کریم پر ایمان لے آئے،