وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے پوچھ کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس آیا ، تو فرعون نے اسے کہا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) میں تجھے جادو کا مارا ہوا سمجھتا ہوں ۔
(65) کفار قریش نے رسول اکرم (ﷺ)سے جب ان چھ نشانیوں کا مطالبہ کیا جن کا ذکر بھی آیات (90) سے (93) میں گزر چکا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نو نشانیاں دی گئی تھیں وہ انہی مطلوبہ نشانیوں کے برابر تھیں، لیکن پھر بھی فرعون اور اس کے پیروکار ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا اہل مکہ کے مطالبہ کے مطابق نشانیاں اس لیے نہیں بھیجی جارہی ہیں کہ اگر ان کے وجود میں آجانے کے بعد بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے تو انہیں ہلاک کردیا جائے گا، اور اللہ انہیں یکسر ختم نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی نو نشانیاں مندرجہ ذیل ہیں : ید بیضا، عصائے موسی، خون، سمندر کے پانی کا دو حصہ ہوجانا، آل فرعون کے مال و دولت کی بربادی، طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک، ان تمام نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد بھی فرعون ایمان نہیں لایا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری عقل میں جادو کی وجہ سے خلل واقع ہوگیا ہے کہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو، بعض حضرات نے مسحور کا معنی ساحر کیا ہے کہ تم جادو کے زور سے خلاف عادت چیزیں پیش کر رہے ہو، سورۃ النمل آیات (13، 14)میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے : پس جب آنکھیں کھول دینے والے ہمارے معجزے پہنچے تو وہ کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے اور انہوں نے انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے، صرف ظلم و تکبر کی بنا پر پس آپ دیکھ لیجیے کہ فساد برپا کرنے والوں کا کیسا انجام ہے۔