قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا
تو کہہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے ، تو ہم ان پر آسمان سے ایک فرشتہ رسول بنا کر بھیجتے (ف ١) ۔
(60) ان کے شبہ کی تردید کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ یہ تو اس کا فضل و کرم ہے کہ بندوں کی رہنمائی کے لیے انہی جیسا رسول بھیجا، تاکہ اس کی بات سمجھیں اور اس کی زندگی ان کے لیے مشعل راہ بنے، اگر زمین پر رہنے والے فرشتے ہوتے تو حکمت کا تقاضا یہی ہوتا کہ ان کی رہنمائی کے لیے انہی جیسا کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا، تاکہ وہ ان کی باتوں کو سمجھتا اور اس کی زندگی ان کے لیے مشعل راہ بنتی، اس لیے اے کفار مکہ ! نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کا انکار بعید از عقل و قیاس بات ہے، بعثت انبیاء کی اسی حکمت کو بیاں فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (151) میں مسلمانوں سے کہا ہے : یعنی جیسا کہ ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔