وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا
اور جب ہم انسان پر فضل کرتے ہیں تو وہ ٹلا جاتا ہے ، اور اپنی کروٹ (شکر سے) دور کرا لیتا ہے اور جب اسے برائی چھوئے تو ناامید ہوتا ہے ۔
(52) اس آیت کریمہ میں اس کافر انسان کی حالت بیان کی گئی ہے جو نور ایمان سے محروم ہوتا ہے اور دنیا کی محبت فکر آخرت پر غالب ہوتی ہے، ایسا انسان اللہ کا بڑا ہی ناشکر گزار ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ اسے ہلاکت سے نجات دے دیتے ہیں تو ناشکری پر اتر آتا ہے اور اسے پکارنا بھول جاتا ہے اور جب اسے کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے، خوف مرض یا بھوک میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے یاس و ناامیدی کے گہرے بادل اس پر چھا جاتے ہیں، اس کے برعکس مؤمن نعمت پاکر سراپا شکر بن جاتا ہے اور مصیبت کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ سورۃ ہود کی آیات (9، 10، 11) میں اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، اور مؤمنوں کو مستثنی قرار دیا ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں، یعنی جب انہیں نعمت ملتی ہے تو شکر ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتے ہیں۔