وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے تجھ سے کہا کہ تیرے رب نے آدمیوں کو گھیر رکھا ہے ، اور وہ دکھلاوا جو ہم نے تجھے دکھلایا تھا اور وہ درکت جس پر قرآن میں لعنت ہوئی ہے ہم نے آدمیوں کیلئے فتنہ ٹھہرایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں ، مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی کو اور کئی درجہ بڑھاتا ہے (ف ١) ۔
(39) نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ ہم نے آپ کو بذریعہ وحی بتا دیا ہے کہ آپ کے رب سے لوگوں کی کوئی بات مخفی نہیں ہے، ان کا کفر و عناد اور آپ کی تکذیب سب اس کے علم میں ہے، آپ نے انہیں اپنے آسمان پر بلائے جانے اور جہنم میں پیدا ہونے والے زقوم کے درخت کی خبر دی تو انہوں نے آپ کا مذاق اڑایا ہے، یہ خبر لوگوں کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی۔ اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ آیت میں رویا سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اللہ کے رسول نے معراج کی رات دیکھی تھیں، جب آپ نے معراج سے واپسی کے بعد لوگوں سے وہ نشانیاں بیان کیں تو کچھ لوگوں نے انکار کردیا اور آپ کو جھٹلایا، لیکن مخلص مسلمانوں کا ایمان قوی تر ہوگیا، ابن جریر طبری نے حسن بصری سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کو عشاء کے وقت بیت الحرام سے بیت المقدس لے جایا گیا، جہاں انہوں نے نماز پڑھی، اس کے بعد اللہ نے اپنی نشانیاں دکھائیں، پھر صبح کے وقت آپ مکہ آگئے اور لوگوں کو معراج کی خبر دی تو کافروں نے کہا کہ اے محمد (ﷺ) ! کیا تم شام کو بیت المقدس میں تھے اور صبح کو ہمارے پاس آگئے ہو؟ اس بات سے انہیں اتنی حیرت ہوئی کہ ان کی باتوں سے متاثر ہو کر کچھ ضعیف الایمان مسلمان مرتد ہوگئے۔ کچھ دوسرے لوگوں کی رائے ہے کہ رویا سے مراد نبی کریم (ﷺ) کا یہ خواب ہے کہ آپ مکہ میں بحیثیت فاتح داخل ہورہے تھے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے سال آپ صحابہ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن چونکہ ابھی فتح مکہ کا وقت نہیں آیا تھا اس لیے آپ کو واپس آنا پڑا، تو بعض لوگوں نے کہا کہ ہم لوگوں سے تو کہا تھا کہ مکہ میں داخل ہوں گے تو پھر کیوں نہ داخل ہوسکے۔ یہ واقعہ ان کے لیے آزمائش بن گیا، جب دوسرے سال مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ اس قول کے مطابق یہ آیت مدنی ہوگی جو مکی سورت میں داخل کردی گئی ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک آیت میں سے مراد زقوم کا درخت ہے جس کا ذکر سورۃ الصافات آیات (62، 63، 64) میں آیا ہے : کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا زقوم کا درخت، جسے ہم نے ستمگاروں کے لیے سخت سزا بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔ طبری، ابن اسحاق اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے کفار قریش کو ڈرانے کے لیے شجر زقوم کا ذکر کیا، تو ابو جہل نے کہا، اے اہل قریش ! وہ شجرہ زقوم جس سے تمہیں محمد (ﷺ) ڈراتا ہے، جانتے ہو وہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو اس نے کہا : وہ یثرب کی عجوہ کھجور ہے جسے مکھن کے ساتھ کھایا جاتا ہے، اللہ کی قسم ! اگر ہمیں وہ مل جائے تو اسے خوب کھائیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور یہاں ملعونۃ درخت کی صفت آئی ہے۔ لیکن اس سے مراد اس کا کھانے والا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الدخان آیات (43، 44) میں فرمایا ہے : زقوم کا درخت گناہگاروں کا کھانا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کفار قریش کو ان باتوں اور انہی جیسی دوسری باتوں کے ذریعہ ڈرانا چاہتے ہیں تاکہ ایمان لے آئیں، لیکن نتیجہ الٹا ہوتا ہے اور ان کی سرکشی اور بڑھ جاتی ہے۔