سورة الإسراء - آیت 33

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو نہ مارو مگر حق پر اور جو ظلم سے مارا گیا تو اس کے وارث کو ہم نے زور دیا ہے سو اسے چاہئے کہ وہ قتل میں زیادتی نہ کرے ، بےشک اسی کی مدد ہونی ہے ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(22) قتل اولاد اور زنا سے ممانعت کے بعد اس آیت کریمہ میں کسی بھی بے گناہ آدمی کے قتل سے منع کیا گیا ہے، سوائے اس شخص کے جس کا شرعی طور پر قتل کرنا ضروری ہوجائے، جیسے کوئی مرتد ہوجائے، یا شادی کرنے کے بعد زنا کا مرتکب ہو، یا کسی آدمی کو ناحق قتل کردے، اور اگر کوئی کسی کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردے، تو اس کے ولی کو پورا اختیار ہے چاہے تو قاتل سے حاکم وقت کے ذریعہ قصاص کا مطالبہ کرے یا دیت لے لے یا چاہے تو اللہ کے لیے معاف کردے، اور قصاص لینے میں حد سے تجاوز نہ کرے، قاتل کے علاوہ دوسرے کو قتل نہ کرے، اگر قاتل ایک ہے تو دو یا دو سے زیادہ کو قتل نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا کہ ایک کے بدلے کئی کو قتل کردیتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قصاص واجب کر کے مقتول کے اولیا ءکی مدد فرما دی ہے اور جو مناسب بدلہ ہونا چاہیے اسے مقرر کردیا ہے اس لیے اللہ کے حکم سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔