ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
پھر ہر طرح کا میوہ کھا ، پھر اپنے رب کی راہوں میں چل ، کہ صاف پڑی ہیں ، ان مکھیوں کے پیٹ میں سے پینے کی چیز (شہد) رنگ برنگ کی نکلتی ہے ، اس میں آدمیوں کے لئے شفا ہے ، بیشک فکر کرنے والوں کیلئے اس میں نشان ہے ۔
میں سبل سے مراد شہد بنانے کے طریقے ہیں۔ یا اس سے مراد راستے ہی ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے اندر یہ بات ودیعت کردی ہے کہ پھلوں کا رس چوسنے کے لیے چاہے وہ کتنی ہی دور چلی جائے، لیکن پھر بآسانی اپنے گھر کو لوٹ آتی ہے اور راستہ نہیں کھوتی، ان مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جسے شہد کہا جاتا ہے، اور غذا کے رنگ اور اس کے مزاج کے اختلاف سے اس کا بعض قسم سفید، بعض زرد اور بعض سرخ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے بہت سے امراض کے لیے شافی بنایا ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام امراض کے لیے شافی ہے، اور کچھ دوسروں کی رائے ہے کہ یہ بعض امراض کے لیے شافی ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ شفا نکرہ ہے جو یہاں عموم پر دلالت نہیں کرتا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں : علم طب کے قوانین اور تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کو اگر مفرد استعمال کیا جائے تو بعض امراض کے لیے شافی ہوتا ہے، اور دیگر دواؤں کے ساتھ ملانے کے بعد بہت سے امراض کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے، بہرحال شہد ایک ایسی چیز ہے جو غذا اور دوا دونوں اعتبار سے بہت ہی عظیم المنفعت ہے، اور یہ دونوں باتیں شہد کے علاوہ کسی دوسری چیز میں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ شہد کی افادیت کا اندازہ ابو سعید خدری کی روایت سے کیا جاسکتا ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کو اسہال کی شکایت تھی، اللہ کے رسول (ﷺ) نے اس کے بھائی سے کہا کہ اسے شہد پلائے، وہ شہد پلاتا گیا اور اس کا اسہال بڑھتا گیا اور ہر بار آپ نے کہا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، جاؤ اسے شہد پلاؤ، چنانچہ تیسری بار کے بعد اس کا اسہال رک گیا اور وہ شفا یاب ہوگیا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب اس کے پیٹ سے تمام فاسد مادہ نکل گیا تو اس کی بیماری ختم ہوگئی، بیشک ان تمام تفاصیل میں اہل فکر و نظر کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عظیم قدرت کی دلیل پائی جاتی ہے۔