تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اللہ کی قسم تجھ سے پہلے ہم نے بہت امتوں میں رسول بھیجے ، سو شیطان نے ان کے کے عمل انہیں بھلے کر دکھائے سو وہی آج ان کا دوست ہے اور ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے (ف ٢) ۔
(37) نبی کریم (ﷺ) کو مکی زندگی میں کفار قریش کی جانب سے جو صبر آزما تکلیفیں اور اذیتیں پہنچتی تھیں اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ انہیں ان پر صبر کرنے کی نصیحت کرتا اور مختلف انداز میں انہیں تسلی دیتا تھا تاکہ آپ دل ہار نہ بیٹھیں، قرآن کریم میں اس قسم کی آیتیں بہت ہیں، یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیائے کرام کی مثال دے کر آپ کو تسلی دینی چاہی ہے، کہ آپ سے پہلے گزشتہ امتوں کے پاس بھی ہم انبیاء بھیجتے رہے ہیں اور شیطان ان کے کفر و شرک کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا کر پیش کرتا رہا ہے، ور ان کی دوستی کا دم بھرتا رہا ہے، تو وہ آج اپنے آپ کو ان کا دوست ظاہر کرلے، اور انہیں خوب گمراہ کرلے، اور مشرکین بھی اس کی آج بندگی کرلیں، لیکن قیامت کے دن کا دردناک عذاب ان مشرکوں کا انتظار کر رہا ہے، جس سے وہ جان بر نہ ہوسکیں گے، اور اگر الیوم سے مراد روز قیامت لیا جائے، تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ کہاں ہے ان کا وہ دوست آج اپنی دوستی کا ثبوت دے اور ان کی مدد کر دکھائے۔