وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور وہی ہے جس نے دریا کو قابو کیا ، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت (مچھلی) کھاؤ ، اور اس میں سے زیور (موتی مرجان) نکالو ، جسے تم پہنتے ہو اور تو دیکھتا ہے کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتی ہیں اور تاکہ تم اس کے فضل سے معیشت طلب کرو اور تاکہ تم شکر گزار ہو ،
(8) خشکی کی نعمتوں کے بعد اب سمندر کی نعمتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اس طرح مسخر کیا کہ اس میں غوطہ لگانے کو آسان بنا دیا، اور کشتیاں بسہولت تمام اس پر دوڑتی رہتی ہیں، اور انسانوں اور ان کی ضروریات زندگی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہیں، ان سمندروں کو اللہ نے اس لیے مسخر کیا ہے، تاکہ لوگ مختلف ذرائع استعمال کر کے مچھلیوں کا شکار کریں اور ان کا تازہ گوشت کھائیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے تازہ گوشت اس لیے کہا گیا ہے کہ مچھلی جب تازہ ہو اسی وقت اسے کھایا جائے کیونکہ وہ بہت جلد خراب ہوجاتی ہے، اور پرانی ہونے کے بعد نقصان دہ ہوتی ہے، اور ان سمندروں کو اس لیے بھی مسخر کیا ہے تاکہ غوطہ لگا کر موتی اور دیگر قیمتی جواہرات نکالیں جو ان کے لیے اور ان کی عورتوں کے لیے زیور کا کام دیں، اور تسخیر سمندر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس میں کشتیاں چلتی رہیں جن کے ذریعہ انسان بے خوف و خطر بھاری تجارتی سامان اور اسباب رزق لے کر تھوڑی مدت میں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک چلا جاتا ہے، اور روزی حاصل کرتا ہے۔ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے، بندوں کو چاہیے کہ اللہ کے ان احسانات کو یاد کریں اور اس کے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔