سورة ابراھیم - آیت 44

وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور لوگوں کو اس دن سے ڈرا جس دن ان پر عذاب آئے گا ، تب ظالم کہیں گے ، اسے ہمارے رب ، ہمیں تھوڑی مدت تک مہلت دے کہ تیری دعوت کو مانیں اور رسولوں کے تابع ہوں (کہا جائے گا) کیا تم پہلے قسمیں کھاتے تھے ، کہ تمہیں کچھ زوال نہ ہوگا ؟

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(32) یہاں بھی خطاب نبی کریم (ﷺ)سے ہے اور الناس سے مراد یا تو عام لوگ ہیں یا اہل مکہ ہیں، پہلا قول راجح ہے اس لیے کہ قیامت کے دن سے ڈرایا جانا مسلم و کافر سب کو شامل ہے، کفار موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے، اور جب کوئی داعی الی اللہ ایسی بات کرتا تو قسمیں کھا کر کہتے کہ دوسری زندگی کا عقیدہ باطل ہے، سورۃ النحل آیت (38) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ وہ لوگ بڑی بھاری قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ جو آدمی مرجائے گا اللہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔