اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
اللہ جس کی چاہے روزی فراخ کرتا ہے اور تنگ کرتا ہے ۔ اور وہ حیات دنیا سے خوش ہیں ۔ حالانکہ حیات دنیا آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ، مگر تھوڑا فائدہ (ف ٢)
(22) اللہ تعالیٰ کافر کی روزی میں وسعت دیتا ہے، گویا اس کی رسی ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ کفر و معاصی میں اور آگے بڑھتا چلا جائے، اور بندہ مؤمن کی روزی میں تنگی پیدا کردیتا ہے اور مقصود اس سے اس کی آزمائش ہوتی ہے اور اس لیے بھی تاکہ اس کے گناہ دنیا ہی میں مٹ جائیں، روزی میں وسعت اللہ کی جانب سے کافر کے اعزاز و اکرام کی دلیل نہیں ہوتی اور نہ تنگی رزق مؤمن کی تذلیل و اہانت کی، اس کے بعد مشرکین مکہ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی پر نازاں و فرحاں ہیں، حالانکہ آخرت کی کامیابی اور حصول جنت کے مقابلہ میں دنیا کی لذتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مفسرین نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ دنیاوی کامیابیوں پر اترانا اور مگن رہنا حرام ہے۔ ترمذی نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول اللہ (ﷺ)چٹائی پر سو گئے تو ان کے پہلو میں اس کا نشان پڑگیا، صحابہ کرام نے کہا، ہم آپ کے لیے نرم بستر بنا دینا چاہتے ہیں، تو آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا مطلب، دنیا میں میری مثال اس مسافر سوار کی ہے جو ایک پل کسی درخت کے سائے میں ٹھہرتا ہے پھر چل دیتا ہے۔ اور مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے مستورد (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا : دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکال لے، اس کی انگلی میں پانی کا کون سا حصہ آجائے گا۔ اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔