لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
اسی کو (معبود سمجھ کر ) پکارنا حق ہے اور اس کے سوا جن کو وہ پکارتے ہیں ۔ ان کو کچھ جواب نہیں دے سکتے ۔ مگر جسے کوئی پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ اس کے منہ میں آ جائے اور وہ کبھی نہ پہنچنے والا ہو اس کو ۔ اور کافروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے (ف ٢)
(14) دعا و عبادت کی تمام قسمیں، خشوع و خضوع، جھکنا اور سر جھکانا، اللہ کے لیے خاص ہے، اس لیے کہ مضطر و پریشان حال کی پکار کو وہی سنتا ہے، وہی ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے، اس لیے صرف اسی کی عبادت کی جانی چاہیے، اسی کے سامنے گریہ و زاری کرنی چاہیے، اور جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے ہیں ان کی مثال اس آدمی کی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف بڑھائے تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، لیکن پانی اس کی پیاس کو محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی دیکھ پاتا ہے کہ کوئی اپنے ہاتھ اس کے سامنے پھیلائے ہوئے ہے، اس لیے نہ وہ اس کی فریاد سن پاتا ہے اور نہ اس کے منہ تک پہنچتا ہے، بتوں کا حال بھی ایسا ہی ہے وہ اپنی عبادت کرنے والوں کی ادنی مانگ بھی پوری نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ کافروں کی عبادت اور بتوں سے ان کی فریاد طلبی ان کے کسی کام نہیں آئے گی، بلکہ وبال دین و ایمان بن جائے گی۔