رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
اے رب تونے مجھ کو بادشاہی دی اور باتوں یعنی خوابوں کی تعبیر سکھلائی اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ۔ تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے ۔ مجھے اسلام پر موت دے ، اور نیکوں میں شامل کر۔
(87) اللہ تعالیٰ نے جب اپنی نعمت یوسف (علیہ السلام) پر تمام کردی، والدین اور بھائیوں کو ان کے پاس پہنچا دیا، اور انہیں علم نبوت، علم تعبیر رویا، اور مصر کی عظیم بادشاہت سے نوازا تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے اللہ ! تو میری باقی عمر تک ان نعمتوں کی حفاظت فرما اور جب موت آئے تو اسلام پر آئے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کردے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے موت کی تمنا کی تھی، اور اس دعا کے بعد وفات پاگئے، لیکن جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ انہوں نے اس دعا کے ذریعہ موت کی تمنا نہیں کی تھی، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب موت آئے تو اسلام پر آئے۔ اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کردے، مسند احمد اور صحیحین میں انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی تکلیف و مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے، اگر نیک آدمی ہوگا تو اس کا اجر و ثواب میں اضافہ ہوگا، اور اگر برا ہوگا تو ممکن ہے کہ اسے توبہ کی توفیق مل جائے، اسے اس طرح کہنا چاہیے کہ اے اللہ ! جب تک میری زندگی میرے لیے بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر موت میرے لیے بہتر ہے تو مجھے موت دے دے۔ یعقوب (علیہ السلام) جب مصر پہنچے تو ان کی عمر ایک سو تیس سال تھی، یوسف (علیہ السلام) نے انہیں اور ان کے بیٹوں کو شاہ مصر سے ملایا، اس نے ان کی خوب تکریم کی اور عین شمس کا علاقہ جو سب سے زیادہ زرخیز مانا جاتا ہے، ان کے نام لکھ دیا۔ مصر میں اقامت پذیر ہونے کے بعد سترہ سال زندہ رہے اور جب وفات پائی تو ان کی وصیت کے مطابق ان کے بیٹوں نے ان کی لاش پر مومیا مل کر محفوظ کرلیا، اور کنعان لے جاکر اس جگہ دفن کیا جو الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جہاں پہلے سے ابراہیم، سارہ، اسحاق ان کی بیوی اور یعقوب کی بیوی مدفون تھیں، یوسف (علیہ السلام) اس کے بعد طویل مدت تک زندہ رہے، دعوت الی اللہ اور امور سلطنت کی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے خاندان والوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ وفات کے بعد ان کی اولاد نے انہیں سنگ مرمر کے ایک صندوق میں دریائے نیل کے بالائی علاقے میں دفن کردیا، اس وقت ان کی عمر ایک سو دس سال تھی، اور ان کی عظیم بادشاہت کی کہانی ختم ہوگئی، اور اللہ کی بادشاہت باقی رہی جو ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ چار سو سال کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا تابوت وہاں سے نکالا اور کنعان لے جاکر ان کے آباو اجداد کے پہلو میں دفن کردیا۔ سرزمین مصر میں آل یعقوب نے خوب ترقی کی اور ان کی نسل بھی بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی گئی یہاں تک کہ ایک پوری قوم بن گئی، اور ایک بڑے علاقے میں پھیل گئی، جب ان میں موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہیں دوبارہ ان کے آباواجداد کے وطن شام واپس لے گئے۔