اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
میرا یہ کرتا لے جاؤ ، اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو ، کہ وہ بینا ہو کر چلا آئے گا اور اپنا سارا گھرانہ میرے پاس لے آؤ۔ (ف ٢)
(80) اب وقت آگیا تھا کہ یعقوب (علیہ السلام) کے درد و الم کا دور ختم ہو، ان کے صبر کا نتیجہ ظاہر ہو، یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف سے وحی کے مطابق بھائیوں سے کہا کہ تم لوگ میری یہ قمیص لے کر جاؤ اور میرے باپ کے چہرے پر اسے ڈالو، اللہ کے حکم سے ان کی بینائی واپس آجائے گی، اور تم لوگ اپنے خاندان کے تمام افراد کو لے کر یہاں آجاؤ، کہتے ہیں کہ ان کی تعداد ستر یا ترانوے تھی۔ یوسف (علیہ السلام) نے انہیں یہ بھی بتایا کہ قحط سالی کے دو سال گزر چکے ہیں ابھی مزید پانچ سال باقی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین میں مجھے تم سے پہلے اس لیے پہنچا دیا تاکہ تم سب یہاں آجاؤ سب کی جان بچ جائے۔ یہ ساری باتیں باپ کو بتاؤ، اور اپنے تمام بال بچے، مویشی اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب لے کر یہاں آجاؤ، ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور شاہ مصر نے انہیں ملک کے سب سے زرخیز علاقے دے دیئے، اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ ماں اور بھائیوں کی خوب خاطر مدارت کی، خوب نوازا، کھانے کے لیے بہترین اناج، پہننے کے لیے عمدہ لباس اور دیگر اخراجات کے لیے بہت سارے پیسے دیئے۔