سورة البقرة - آیت 145

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر تو اہل کتاب کے پاس ساری نشانیاں بھی لاوے وہ تیرے قبلہ کے تابع نہ ہوں گے اور تو بھی ان کے قبلے کا تابع نہ ہوگا اور ان میں سے بھی بعض بعض کے قبلے کے تابع نہیں ہیں اور اگر تو ان کی خواہشوں کے تابع ہوگا بعد اس کے کہ تجھے علم حاصل ہوچکا ہے تو تو ظالموں میں سے ہوجائے گا ۔ (ف ١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

215: اس میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کے کفر وعناد اور ان کی جانب سے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہر بات کی مخالفت کی اطلاع دی ہے، اور نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس بات کی خبر دی ہے کہ اگر آپ اپنے دین کی صداقت پر تمام دلیلیں اکٹھا کر کے ان یہود و نصاری کے سامنے پیش کردیں گے، تب بھی یہ آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور اپنی خواہشات کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کا کفر کسی شبہ کی وجہ سے نہیں جسے دلائل کے ذریعہ دور کیا جاسکے، یہ تو صرف کبر و عناد کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ 216: یعنی نہ وہ لوگ اپنے باطل کو چھوڑنے والے ہیں، اور نہ آپ اپنے حق کو چھوڑنے والے ہیں، آپ سے ایسا سرزد ہونا ممکن ہی نہیں۔ 217: یہود کا قبلہ بیت المقدس ہے، اور نصاری کا مطلع آفتاب، حالانکہ ان سب کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، لیکن دونوں ہی جماعتیں اپنی اپنی رائے پر سختی کے ساتھ جمی ہوئی ہیں۔ اس میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے ایک طرح کا اشارہ ہے کہ آپ ان سے بھلائی کی توقع نہ کریں اور ان کی ہدایت کی امید نہ رکھیں۔ 218: یہود و نصاری کے مذہب کو اھواء یعنی خواہشات نفس سے تعبیر کیا گیا ہے، اس لیے کہ ان کا مذہب ان کی خواہشات کے مجموعے کا نام تھا اور وہ لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ جاثیہ آیت 23 میں فرمایا ہے: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اِتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُĬ، یعنی کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے اس آیت میں بندے کی خواہش نفس کو اس کا معبود بتایا گیا ہے۔ 219: اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ آدمی حق وباطل کو جانتے ہوئے، باطل کو حق پر ترجیح دے، یہاں مخاطب اگرچہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، لیکن ان کی امت اس میں داخل ہے، اگر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی عظمت شان اور علوت مرتبت کے باوجود ایسا کرنے پر اللہ کے نزدیک ظالم ہوجائیں گے، تو ان کی امت کے لوگوں کا ایسا کرنے پر کیا حال ہوگا۔