أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کیا کہتے ہیں کہ اس نے جھوٹ باندھا ہے تو کہہ ایسی جھوٹ باندھی ہوئی تو دس ہی آیتیں لے آؤ ٗ اور خدا کے سوا جسے پکار سکتے ہو ، پکارو اگر سچے ہو (ف ٢) ۔
(12) جب کفار مکہ نے وحی الہی کا انکار کردیا اور رسول اللہ (ﷺ) پر اتہام دھرا کہ قرآن ان کا کلام ہے اللہ کا نہیں، تو اللہ نے چیلنج کردیا کہ اگر یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، محمد کا کلام ہے تو پھر تم اس جیسی دس سورتیں ہی لاکر دکھاؤ، سورۃ یونس آیت (39) کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کو قرآن کریم جیسا کلام لانے کا چیلنج کئی مراحل میں کیا تھا، پہلے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ یہ قرآن محمد کا کلام ہے تو اس جیسا تم بھی پیش کرو، جب عاجز و ساکت رہے تو اس آیت میں کہا کہ اگر پورا قرآن نہیں تو اس جیسی کم از کم دس سورتیں ہی پیش کردو، جب اس سے بھی عاجز رہے تو سورۃ یونس والی آیت میں کہا کہ کم از کم ایک ہی سورت اس جیسی لے آؤ، اور سورۃ طور آیت (34) میں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوے زبان دانی کی تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی، جب کہا کہ اگر تم سچے ہو تو قرآن جیسی ایک بات بھی لا دو، اور عربوں کے تمام فصحاء و بلغاء اور ادباء و شعراء پرگنگ طاری رہی، اور آج تک کوئی اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا۔