إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
حیات دنیا کی مثال اس پانی کی ہے ، جو ہم نے آسمان سے برسایا ، پھر اس میں زمین کا سبزہ مل نکلا ، جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ‘ یہاں تک کہ جب زمین (اپنی خوبصورتی اور) اپنی چمک پرآئی اور آراستہ ہوگئی ، اور زمیندار سمجھے کہ ہم اس پر قادر ہوئے تو اس پر رات کو یا دن کو ہمارا حکم آیا ، پھر ہم نے اسے کٹا ہوا ڈھیر کردیا گویا کل وہاں کچھ نہ تھا ، یوں ہم فکر کرنے والوں کے لئے پتے کھولتے ہیں ۔
(22) دنیا کی بے ثباتی کو ایک دوسری مثال کے ذریعہ بیان کیا جارہا ہے کہ جس طرح لہلہاتے پودے کچھ ہی دنوں کے بعد مرجھا جاتے ہیں اور پھر خشک ہو کر اپنی تازگی اور خوبصورتی کھو بیٹھتے ہیں وہی حال دنیا کا ہے کہ یہ اپنی عارضی رونق سے لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ایام ختم ہوجاتے ہیں اور موت آدبوچتی ہے اور سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے اور آدمی دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔