مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
اہل مدینہ اور انکی نواحی کے دیہاتیوں کو مناسب نہیں ‘ کہ رسول کے ساتھ جانے سے پیچھے رہیں ، اور نہ یہ مناسب ہے کہ نبی کی جان سے اپنی جانوں کو زیادہ چاہیں ، یہ اس لئے کہ اللہ کی راہ میں جو پیاس اور رنج اور بھوک ان پر آئے اور جہاں ان کے قدم جائیں ، تاکہ کافر خفا ہوں ، اور جو کچھ وہ اپنے دشمن سے چھین لیں ، مگر ان کے لئے اس پر نیک عمل لکھا جاتا ہے ، اللہ نیکوں کی مزدوری ضائع نہیں کرتا ۔ (ف ١)
(95) نبی کریم کے ساتھ غزوہ میں نکلنے کی مزید تاکید کی گئی ہے اور ان لوگوں کو عتاب کیا گیا ہے جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں تھے، مدینہ کے اردگرد رہنے والے بادیہ نشینوں سے مراد مزینہ، جہینہ، اشجع، اسلم اور غفار وغیرہ قبائل ہیں، ان قبائل کو خصوصی طور پر اس لیے عتاب کیا گیا کہ انہیں غزوہ کے لیے روانگی کا حکم نبوی پہنچ چکا تھا، اور اس لیے بھی کہ ایمان صادق اور قرب و جوار کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ کا ساتھ دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے، اور اپنی جان دے کر ان کی جان کی حفاظت کرتے، اور ہر قدم پر اور ہر تکلیف پر جو انہیں اس راہ میں پہنچتی اور اللہ کی راہ میں ہر خرچ کے عوض اجر وثواب حاصل کرتے۔