وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور جنہوں نے (مدینہ میں) بہ نیت ضرور وکفر ضرور ہے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور اس کی گھات کیلئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے لڑچکا ہے ، ایک مسجد بنائی ہے ، اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا اور اللہ گواہی دیتا ہے ، کہ وہ جھوٹے ہیں (ف ١) ۔
(85) (107) سے (110) تک کا تعلق ان منافقین سے ہے جنہوں نے مسجد قبا کے قریب مسجد کے نام سے ایک عمارت بنائی تھی، جس کا مقصد اسلام کے خلاف سازش اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنا تھا، حافظ ابن کثیر نے ابن اسحاق اور ابن مردویہ وغیرہما سے ان آیتوں کے شان نزول کے سلسلہ میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ میں قبیلہ خزرج کا ابو عامر الراہب نامی ایک شخص تھا، جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگیا تھا، اس کا خزرج والوں میں بڑا مقام تھا، جب رسول اللہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اسے دعوت اسلام دی لیکن اس نے انکار کردیا، اور غزوہ بدر کے بعد مکہ جاکر کفار قریش کو رسول اللہ کے خلاف ابھارا، اور غزوہ احد میں کافروں کی صف میں آگے آکر انصار کو مخاطب کر کے اپنی نصرت و تائید کی دعوت دی جس پر انصار نے اسے بہت زیادہ برا کہا، اس کے بعد اس نے روم جاکر وہاں کے بادشاہ ہر قل کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا، اور وہیں سے مدینہ میں اپنے منافق دوستوں کو لکھا کہ وہ ایک مسجد بنائیں جس کا مقصد مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا ہو اور جب وہ مدینہ واپس آئے گا تو اسے اپنے لیے کمین گاہ کے طور پر استعمال کرے گا جب منافقین نے وہ عمارت بنا لی تو رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے کمزوروں، بیماروں اور بارش اور سردی کے لیے ایک مسجد بنائی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں اور اس میں نماز پڑھیں، رسول اللہ اس وقت غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہورہے تھے، آپ نے کہا کہ واپسی کے بعد چلوں گا، واپسی میں آپ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر تھے تو وحی نازل ہوئی اور اس عمارت کی حقیقت معلوم ہوئی، چنانچہ آپ نے دو صحابہ کو بھیجا جنہوں نے اس مکان کو جلا دیا، جسے اللہ تعالیٰ نے مسجد ضرار کا نام دیا، یعنی وہ مسجد جو قبا والوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی۔