وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور مہاجرین اور انصار میں سے جنہوں نے سبقت کی ، اور اول رہے ، اور جو لوگ نیکی سے ان کے بعد آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اور ان کے لئے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ وہاں رہیں گے ، یہی بڑی مراد ملنی ہے (ف ٢) ۔
(77) بادیہ نشین مخلص مسلمانوں کے بعد اب ان نفوس قدسیہ کا ذکر ہورہا ہے جو اللہ کے نزدیک ان بادیہ نشینوں سے کئی گنا برتر و بالا اور افضل و اعلی ہیں۔ سابقین اولین کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں کسی نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، کسی نے کہا : جنہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی، کسی نے کہا : جو لوگ ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے، اور جو لوگ ان کے بعد آئے سے مراد وہ سات انصاری مسلمان ہیں جنہوں نے عقبہ اولی کے پاس رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور پھر وہ ستر مسلمان جنہوں نے دوسرے سال رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اور وہ تمام انصار جنہوں نے مصعب بن عمیر کی تبلیغ سے متاثر ہو کر ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن راجح یہ ہے کہ سابقین اولین میں وہ تمام مہاجرین داخل ہیں جنہوں نے ہجرت کرنے میں پہل کر کے رسول اللہ کا دل مضبوط کیا اور دوسروں کے لیے نمونہ بنے اور وہ تمام انصار جنہوں نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اور جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو آپ کا ساتھ دیا۔ ابو منصور بغدادی کا قول ہے کہ ہمارے اصحاب کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے افضل خلفائے اربعہ ہیں، پھر غزوہ بدر میں شریک ہونے والے پھر احد میں شریک ہونے والے، پھر مقام حدیبیہ میں رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے جسے بیعت الرضوان کہا جاتا ہے، اور جو لوگ ان کے بعد آئے، سے مراد تمام متاخرین صحابہ، تابعین اور وہ تمام لوگ ہیں جو قیام تک اقوال و افعال میں سابقین اولین کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔