وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ
اور ان میں کوئی ہے ‘ جو تقسیم زکوۃ کی بابت تجھے عیب لگاتا ہے ، سو اگر اس میں سے انہیں ملے تو راضی ہیں ، اور جو انہیں اس میں سے نہ ملے ، تو فورا ہی ناراض ہیں (ف ١) ۔
45۔ بعض منافقین نبی کریم (ﷺ) پر صدقات کی تقسیم کے بارے میں نکتہ چینی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا، اپنے چہیتوں کو زیادہ دیتا ہے اور ہمیں کم، اللہ نے فرمایا کہ ایسا سوچنا ان کی دنیا پرستی اور نفاق کا نتیجہ تھا، اگر وہ مخلص مسلمان ہوتے تو اللہ اور رسول کی تقسیم پر راضی رہتے اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور اللہ آئندہ اپنے فضل و کرم سے مزید دے گا، اور ہمارا مقصود حیات تو یہ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے۔ بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس تھے، اور آپ (ﷺ) مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ بنی تمیم کے ذوالخویصرہ نامی شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول انصاف سے کام لیجئے تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ تمہاری بربادی ہو، اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ عمر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں، تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اس کے کچھ ایسے ساتھی ہیں جن کی نماز اور روزے کے مقابلے میں تم لوگ اپنی نماز اور روزے کو حقیر جانو گے، وہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں، لیکن ان کی گردنوں سے آگے نہیں بڑھتا، وہ لوگ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔