سورة التوبہ - آیت 46

وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر وہ نکلنا چاہتے ، تو جہاد کے لئے پہلے سے اسباب تیار کرتے ، لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ آیا ، سو اس نے انہیں سست کردیا اور انہیں حکم ہوا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو (ف ١) ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(36) منافقین اپنا عذر بیان کرنے میں قطعی جھوٹے ہیں اگر ان کا ارادہ آپ کے ساتھ نکلنے کا ہوتا تو ہتھیار زاد سفر اور سواری کی تیاری کرتے لیکن ان کا ایسا ارادہ ہی نہیں تھا اس لیے اگر انہیں اجازت مل بھی جاتی تو بھی آپ کے ساتھ نہ جاتے اللہ نے بھی نہیں چاہا کہ وہ آپ کے ساتھ جائیں اس لیے کہ اگر وہ جاتے تو انہی جیسے کچھ دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ گئے تھے انہیں خراب کرتے (جنہیں قرآن نے سماعون یعنی منافقین کے جواسیس بتایا ہے اسی لیے اللہ نے ان کے دل میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ نہ جائیں) اور مسلمانوں کی صفوں میں فساد پربا کرنے کی کو شش کرتے محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور الجد بن قیس جیسے لوگ تھے اگر یہ لوگ فوج میں ہوتے تو ان تمام لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرتے جن سے ان کا تعلق تھا اور جو ان کے دنیاوی مقام وجاہ کی وجہ سے ان کی بات مانتے تھے۔