إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہ کرو گے (توخیر) خدا نے اس کی اس وقت مدد کی تھی جب کافروں نے اسے مکہ سے اس حال میں نکالا ، کہ وہ وہ ہیں دوسرے تھے ، جب وہ دونوں (ابوبکر (رض) و محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) غار ثور میں تھے جب (دونوں میں کا ایک) اپنے ساتھی سے کہنے لگا تھا ، مت ڈر ، اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسلی نازل کی ‘ اور فوجوں سے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اس کی مدد کی ‘ اور کافروں کی بات نیچی رکھی ، اور خدا کی بات وہی بلند ہے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے (ف ١) ۔
آیت (40) میں نبی کریم (ﷺ) کو اطمینان ویقین دلا یا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کے ذریعہ آپ کی مدد تو آپ کے اطمینان کے لیے ہے ورنہ اللہ کسی ظاہری سبب کا محتاج نہیں اگر لوگ آپ کی مدد نہیں کرتے ہیں تو نہ کریں وہ تو ہر حال میں اپنے نبی کی مدد کرتا رہے گا اور کبھی بھی اسے تنہا نہیں چھوڑے گا اور اس کی مثال ہجرت کے وقت کے حالات ہیں جب اہل مکہ نے آپ (ﷺ) کو قتل کردینا چاہا اور آپ (ﷺ) ابوبکر (رض) کے ساتھ مکہ سے چھپ کر نکلے اور تین دن تک غار ثور میں چھپے رہے دشمنوں نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں پالینے کی ہر انسانی تدبیر کر ڈالی لیکن اللہ نے اپنے نبی کی حفاظت کی اور بحفاظت تمام مدینہ منورہ پہنچایا۔ سے مراد رسول اللہ (ﷺ) اور ابوبکر (رض) ہیں امام احمد اور بخاری ومسلم نے ابو بکر (رض) سے ورا یت کی ہے کہ جب ہم غار میں تھے تومیری نظر مشر کین کے قدموں پر پڑی جبکہ وہ ہمارے سروں پر کھڑے تھے میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اگر دشمنوں میں سے کوئی اپنے قدموں پر نظر ڈالے گا تو ہمیں دیکھ لے گا آپ (ﷺ) نے فرمایا اے ابو بکر ! آپ کا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر سکون واطمینان نازل کیا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کی جو غار میں آپ کی حفاظت کرتے رہے اور کفر وشرک مغلوب ہوا اور توحید کو غلبہ حاصل ہوا۔