يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
مومنو ! اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویش لوگوں کے مال ناحق کھاتے ، اور لوگوں کو اس کی راہ سے روکتے ہیں ، اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ، اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے ، تو انہیں دکھ دینے والے عذاب کی بشارت سننا (ف ٢) ۔
(28) اس آیت کریمہ میں یہود ونصاری کے عالموں اور راہبوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں رشوت لے کے ان کی مرضی کے مطابق فتوے دیتے ہیں اور تورات وانجیل میں موجود احکام ومسائل کو بدل دیتے ہیں اور اپنی افتر پردازیوں کو اللہ کی شریعت بتاتے ہیں دورجاہلیت میں علمائے یہود کا بڑامقام تھا انہیں لوگوں کی طرف سے خوب پیسے ملتے تھے اور مختلف قسم کے ہدیے ان کے پاس پہنچتے تھے جب رسول اللہ (ﷺ) مبعوث ہوئے تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں لیکن اپنی کرسی اور دنیاوی فائدوں کی خاطر اسلام نہیں لائے تو اللہ نے ان کی عزت وریاست کو ذلت ورسوائی سے بدل دیا۔ یہاں مقصود مسلمانوں کو ان کے علمائے سوء گمراہ کن عابدوں کی طر سے متنبہ کرنا ہے سفیا ن بن عینہ کا قول ہے جو مسلمان عالم گمراہ ہوجاتا ہے علمائے یہود کے مشابہ ہوجاتا ہے اور جو مسلمان عابد گمراہ ہوجا تا ہے وہ عباد نصاری کے مشابہ ہوجاتا ہے، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی کر یم (ﷺ) نے فرمایا اے مسلمانوں تم لوگ گذشتہ قوموں کے طریقوں کو ضرور اپنا ؤگے اور ان کے نقش قدم پر پورا پورا چلو گے لوگوں نے پوچھا کیا مراد یہو دونصاری ہیں، تو آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہو سکتے ہیں ؟ ایک روایت میں ہے فارس اور روم کے لوگ۔