مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
مشرکوں کا کام نہیں کہ اپنی جانوں پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے اللہ کی مسجدیں (ف ٢) ۔ آباد کریں ، ان کے اعمال ضائع ہوئے اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے ،
(15) مشرکین قریش کو اس بات کا بڑا زعم تھا کہ وہ مسجد حرام کی دیکھ بھال کرنے والے اور اسے آباد رکھنے والے ہیں اس لیے وہ اپنے آپ کو اوروں سے ارفع واعلی تصور کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس زعم باطل کی نفی کی اور کہا وہ کیسے دعوی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے گھروں کو آباد رکھنے والے ہیں جبکہ وہ خود اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور جانتے ہوئے اس پر مصر ہیں ایسے لوگوں کا تو کوئی عمل بھی قابل قبول نہیں ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے مسجدوں کو آباد کرنے کی شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اس کے رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھے اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر نماز قائم کرے زکاۃ دے اور اللہ کے علاہ کسی کے خوف کو اپنے دل میں جگہ نہ دے معلوم ہوا کہ جو مؤمن نہیں ہوگا وہ مسجد کو آباد کرنے والا نہیں ہوگا اور مسجد کو وہی آباد کرتا ہے جو مؤمن ہوتا ہے اس لیے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ جو صبح وشام مسجد کی طرف جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر تیار کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اور یہ بھی فرمایا ہے: جو اللہ کی رضا کے لئے مسجد بناتا ہے ، اللہ اسکے لئے جنت میں گھر بناتا ہے (بخاری ومسلم) اور یہ بھی فرمایا کہ جب تم کسی آدمی کو مسجد جانے کا عادی پاؤ تو اس کے لیے ایمان کی گواہی دو اس کے بعد والی آیت پڑھی (ترمذی )