وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی اس کی طرف جھک اور خدا پر بھروسا رکھا وہ سنتا جانتا ہے (ف ١) ۔
(51) بھرپور جنگی تیاری کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن مرعوب ہو کر صلح کی پیش کش کریں گے اگر ایسا موقع آئے تو جنگی صلاحیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کو صلح پر آمادہ ہونے کی نصیحت کی گئی ہے اس لیے کہ ممکن ہے اس طرح وہ ایمان لانے کی سوچیں اور حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں اور مسلمان صلح کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کریں تاکہ کافروں کے مکروفریب سے اللہ مسلمانوں کو محفوظ رکھے بعض علمائے کرام نے کافروں کے ساتھ صلح کے جواز کی شرط یہ لگائی ہے کہ مسلمان کمزور ہوں اگر مسلمان قوی اور غالب ہوں تو صلح کرنی جا ئز نہیں ہے اور انہوں نے سورۃ محمد کی آیت (35) سے استدلال کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلند وغالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے لیکن راجح پہلی رائے معلوم ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، ایسی صورت میں اس آیت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ مسلمانوں کے غالب گمان کے مطابق کافروں سے خیانت کا ڈرہو، واللہ اعلم۔