قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
تو کہہ میں اپنی جان کے بھلے یا برے کا مالک نہیں ہوں ‘ لیکن جو کچھ اللہ چاہے ‘ اور اگر میں (ف ٢) ۔ غیب کی بات جانتا ، تو بہت سی خوبیاں جمع کرلیتا ، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچتی ، میں تو مومنوں کو صرف ڈرانے اور خوشی سنانے والا ہوں ۔
(118) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ اللہ کے لیے اپنی عبودیت کا اعلان کردیں اور اپنے بارے میں لوگوں کو بتا دیں کہ آپ غیبی امور کی کوئی چیز نہیں رکھتے۔، آپ کو صرف وہی باتیں معلوم ہیں جن کی خبر اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی دی ہے، سورۃ یونس آیات (48/49) میں بھی یہی بات کہی گئی ہے، مزید تاکید کے طور پر کہ رسول اللہ (ﷺ) کو غیب کا علم نہیں تھا، آپ (ﷺ) نے قرآن کی زبان میں فرمایا کہ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو پہلے سے ہی اسباب مہیا کر کے اپنے لیے فوائد ومنا فع جمع کرلیتا مثلا قحط سالی کے زمانے کے لیے زرخیزی اور خوشحالی کے ایام میں ہی تیار کرلیتا تو مجھے کوئی تکلیف نہ لاحق ہوتی لیکن ایسا نہیں کرسکتا یہ دلیل ہے اس بات کی کہ میں غیب کا علم نہیں رکھتا ہوں میں تو اللہ کی وحی کے مطابق اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو صرف اس کا پیغام پہنچانے آیا ہوں۔