وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور اللہ کے سب نام اچھے ہیں ، سو تم ان سے اسے پکارو ، اور انہیں چھوڑ دو ، جو اس کے ناموں میں کجی کی راہ چلتے ہیں ، وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے (ف ٢) ۔
(110) آیت (178) یہ بیان کیا گیا ہے، کہ اللہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلنے کی تو فیق دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے۔ اور آیت (179) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ کبر وغرور کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق نہیں مانگتے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، یہ آیت کریمہ دوباتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ایک تو یہ کہ بندہ ہر وقت اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتا رہے، دنیا وآخرت کی ہر بھلائی اسی سے مانگتا رہے، اسی سے لولگائے رکھے، کیونکہ سب کچھ کا مالک وہی ہے، صحیح حدیث میں آیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ جو بندہ اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے، اور دوسری بات جو اس آیت سے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اچھے ناموں کے ساتھ پکارنے کے بعد جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے، آیت میں اللہ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس کہ ناموں میں الحاد سے کام نہ لیا جائے یعنی اسے بدلا نہ جائے جیسا کہ مشرکین نے اللہ سے لات عزیز سے عزی اور منان سے منات بنا لیا تھا، اور نہ بھگوان اور ایشور اور انگریزوں نے گاڈ وغیرہ نام ایجاد کرلیے ہیں اور نہ اللہ کا قرآن وسنت سے کوئی ثابت شدہ نام حذف کردیا جائے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تاویل کر کے ان ظا ہری معانی کو بدل دینا یا ان کا کوئی معنی ہے مراد نہ لینا یا انہیں مخلوق کے ناموں کے ساتھ تشبیہ دینا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کی صورتیں ہیں۔ صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص انہیں گنے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اللہ کے ننانوے نام یاد کرے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا، اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صرف ننانوے ہی نام ہیں بلکہ اللہ کے نام اس سے زیادہ ہیں جن کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے جیسا کہ ابن مسعود کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جسے احمد ابوعوانہ، ابو یعلی اور بزار نے روایت کی ہے، جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کو ایک عظیم دعا سکھائی ہے اسمیں آیا ہے : (أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أو استأثرت به في علم الغيب عندك) کہ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے ذریعہ مانگتاہوں جو تو نے اپنے لیے رکھا ہے، یا جسے تو نے اپنے پاس علم غیب میں چھپا رکھا ہے، امام نووی نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار نام ہیں۔