سورة الاعراف - آیت 169

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر ان کے بعد ناخلف لوگ کتاب کے وارث ہوئے کہ ادنے زندگی کا اسباب اختیار کرتے ، اور کہتے ہیں کہ ہمیں معاف ہوجائے گا ، اور اگر ویسا ہی اور اسباب ان کے پاس آجائے اسے لے لیں ، کیا وہ عہد جو کتاب میں ہے ، ان سے نہیں لیا گیا ، کہ اللہ کی نسبت سوائے حق کے اور کچھ نہ بولیں گے ، اور جو کتاب میں ہے پڑھ چکے ہیں اور آخرت کا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے ، کیا تم سمجھتے نہیں ؟

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(103) بنی اسرائیل کا ہر دور میں یہی حال رہا، یہاں تک کہ نبی (ﷺ) کا زمانہ آگیا، آپ (ﷺ) کے زمانے میں جو یہودی تھے، انہی کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہایت ناخلف لوگ تھے کہ ہر خوبی ان سے رخصت ہوگئی تھی، اور تورات کے احکام کو بدل کر دنیا کمانا ان کا پیشہ ہوگیا تھا، رشوت لے کر تورات کے خلاف فیصلے کرتے تھے، اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے تھے کہ اللہ ان کا مواخذہ نہیں کرے گا، انہیں معاف کردے گا، حالا نکہ وہ اپنے دل میں اس بات پر مصر ہوتے تھے کہ اگر کسی نے دوبارہ بھی رشوت دی تو اسے لے لیں گے، اور دل سے تائب نہیں ہوتے تھے، ان کی دینی اور اخلاقی پستی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کا تحکمانہ انداز کہ وہ انہیں معاف کردے گا، اللہ پر افتراپردازی تھی، اور اس پر عہد ومیثاق کے خلاف بات تھی، جو ان سے لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں صدق بیانی سے کام لیں گے، اور انہیں تورات کے مطالعہ سے اس عہد کا علم بھی تھا ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے جانتے نہیں تھے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی، دنیاوی حقیر مفادات سے زیادہ بہتر ہے۔