سورة البقرة - آیت 3

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو غیب (ف ٣) پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں ۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے عقائد اور ظاہری اور باطنی اعمال کو بیان کیا ہے جن کو لفظ تقوی شامل ہے، یعنی متقی وہ ہوگا جس کے اندر مندرجہ ذیل اوصاف پائے جائیں گے۔ ایمان سے مراد تصدیق ہے اور غیب سے مراد ہر وہ بات ہے جس کا ادراک انسان کے حواس خمسہ سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا علم وحی اور انبیاء کی تعلیمات کے ذریعہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں غیب سے مراد ہر وہ بات ہے جس تک عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی اور جس کی خبر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دی ہے، جیسے ذات و صفات باری تعالیٰ، فرشتوں کا وجود، عرش و کرسی، لوح و قلم، علامات قیامت، عذاب قبر، نشر و حشر، پل صراط و میزان، جنت و جہنم، اور اسی طرح کے تمام غیبی امور۔ مؤمن ہر اس بات پر ایمان لاتا ہے جس کی خبر اللہ یا اس کے رسول نے دی ہے، چاہے انسان نے اس کا مشاہدہ کیا ہو یا نہیں۔ اور چاہے اس نے سمجھا ہو یا نہیں، لیکن ملحدین اور غیبی امور کر جھٹلانے والے اس نعمت (ایمان و تصدیق) سے محروم ہوتے ہیں۔ یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں تو اس کے تمام ارکان، واجبات اور شروط کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور مکمل خشوع و خضوع، اور حضور قلب کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اور ان سنتوں کو بھی ادا کرتے ہیں جو فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ثابت ہیں۔ یہی وہ نماز ہے جس کی پابندی کرنے والوں کی اللہ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تعریف کی ہے۔ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَĬİ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَĬ اور اسی لیے جب منافقین کی نماز کا ذکر آیا تو کہا گیا اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نماز پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اقامت صلاۃ، کی صفت والے تھوڑے ہیں۔ یہاں مال خرچ کرنے کی جتنی واجب اور مستحب صورتیں ہوسکتی ہیں سبھی مراد ہیں۔ لفظ (رزق) سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ کوئی اس زعم باطل میں مبتلا نہ ہو کہ اس نے اپنے زور بازو سے حاصل کرلیا۔ اس لیے اس انعام کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ان رشتہ داروں اور بھائیوں کو نہ بھولا جائے جنہیں اللہ نے اس مال سے محروم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں صلاۃ و زکاۃ کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، اس لیے کہ نماز کے ذریعہ اللہ کے لیے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے، اور زکاۃ و صدقہ کے ذریعہ اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کے جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ آدمی کی نیک بختی اور سعادت اسی میں ہے کہ اپنے معبود حقیقی کے لیے مخلص رہے، اور جب تک زندہ رہے اس کی مخلوق کو نفع پہنچا نے کی سعی کرتا رہے۔