وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جاؤ مگر جس طرح بہتر ہو ، یہاں تک کہ اپنی جوانی کو پہنچے اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پوری کرو ، ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب بولو تو انصاف سے بولو ، اگرچہ قرابتی کیوں نہ ہو ، اور اللہ کا عہد پورا کرو ، یہ باتیں ہیں جن کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے شاید تم سوچو ۔
[١٧١] یتیم کا مال کھانا :۔ یعنی اگر یتیم کا مال تمہاری تحویل میں ہے تو اسے صرف اس طریقے سے خرچ کرو جس میں یتیم کا بھلا اور بہتری ہو۔ اس سے کوئی اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے کی مطلق کوشش نہ کرو نہ ہی اس قسم کی بات دل میں سوچو یتیم کا مال اس کا ولی صرف اس صورت میں کھا سکتا ہے جبکہ وہ خود تنگ دست اور محتاج ہو اور اس صورت میں بھی وہ صرف معروف طریقے سے اس میں سے لے سکتا ہے جو کسی بھی فریق کے لیے قابل اعتراض نہ ہو۔ یتیم کا مال کھانے کی ممانعت قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گناہ کو سات بڑے بڑے ہلاک کردینے والے گناہوں میں سے پانچویں نمبر پر شمار کیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہ ! وہ کون کون سے ہیں؟‘‘ فرمایا ’’اللہ سے شرک کرنا، جادو، ایسی جان کو ناحق کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے بھاگنا اور بھولی بھالی پاکباز مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رمی المحصنات) [١٧٢] ناپ تول میں کمی بیشی کے ذریعہ دوسروں کا مال کھانا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم کو تباہ و برباد کر ڈالا تھا۔ قرآن کریم میں ایک سورۃ کا نام ہی المطففین ہے یعنی وہ لوگ جو ناپ تول کرتے وقت اپنا حق تو دوسروں سے زیادہ وصول کرتے ہیں اور دیتے وقت دوسروں کو ان کے اصل حق سے کم دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے کام فریب کاری سے ہی ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایسا کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کا خوف نہ ہو۔ پھر ان کا انجام یہ بتایا کہ ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ [١٧٣] عدل وانصاف سے بات کہنا :۔ اگرچہ عام بات چیت میں بھی کسی کے متعلق بے انصافی کی بات کرنا جرم ہے لیکن اگر شہادت کی صورت میں ہو تو جرم عظیم بن جاتی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا تو فرمایا : ’’بڑے گناہ یہ ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا اور والدین کو ستانا۔‘‘ پھر فرمایا ’’میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ وہ ہے قول الزور (یعنی ناانصافی کی بات، یا ایسی بات جس میں ہیرا پھیری سے جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کی جائے) یا ایسی ہی جھوٹی شہادت۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) اور آیت کا مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب بھی تم بات کرو تو انصاف کی کرو سچے کو سچا کہو اور جھوٹے کو جھوٹا۔ خواہ اس کی زد تمہاری اپنی ذات پر پڑتی ہو یا کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار یا دوست پر۔ کوئی بات گول مول یا ہیرا پھیری سے بھی نہ کرو جس سے کسی دوسرے کی توہین کا پہلو نکلتا ہو یا اس کا کوئی حق تلف ہوتا ہو۔ یا اس سے متکلم کی ذات کو کسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہو۔ [١٧٤] عہد کو بہرحال پورا کرنا فرض ہے خواہ یہ عہد انسان نے اللہ سے کیا ہو جیسے کوئی نذر یا منت ماننا یا اللہ کا نام لے کر دوسروں سے کیا ہو اور اس میں عقد نکاح اور بیوع بھی شامل ہیں۔ یا وہ عہد جسے عہد الست کہا جاتا ہے اور وہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ [١٧٥] یعنی اے مشرکین اور یہود! کرنے کا کام تو یہ نو قسم کے احکام ہیں جن کی علمی سند ہر کتاب اللہ میں موجود ہے۔ ان کا تو تم خیال نہیں رکھتے اور خلاف ورزیاں کیے جاتے ہو اور جن شرکیہ افعال کو تم بجا لا رہے ہو۔ وہ تمہارے اپنے ہی خود ساختہ ہیں جن کی کوئی علمی سند موجود نہیں۔ لہٰذا اگر ہدایت مطلوب ہے تو اپنی سابقہ روش چھوڑ کر یہ طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر لکھی لکھائی تختیاں دی گئیں۔ ان میں دس احکام مذکور تھے جنہیں احکام عشرہ کہتے ہیں۔ یہ احکام بعد میں تورات میں شامل کردیئے گئے۔ ان دس احکام میں سے ایک حکم سبت کے دن کی تعظیم تھا۔ اگر اسے نکال دیا جائے تو باقی یہی نو احکام رہ جاتے ہیں جو ان آیات میں مذکور ہیں۔ یہود کو بالخصوص تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تمہارے لیے جو بنیادی احکام تھے ان میں سے ایک ایک حکم کی تم نے خلاف ورزی کی اور اس کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کے بجائے ایسے کاموں میں لگ گئے ہو جن کا تمہاری کتاب میں کہیں اشارہ تک نہیں ملتا۔