وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جیسا کہ وہ پہلی ہی بار اس پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں چھوڑ دینگے ان کی سرکشی میں بہکتے ہوئے ۔
[١١٢] یعنی اگر یہ لوگ معجزہ دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو قرآن بذات خود کیا کم معجزہ تھا جس کے کھلے کھلے چیلنج کے باوجود یہ سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورۃ بھی پیش نہ کرسکے اور اب اگر مزید ہم انہیں کوئی معجزہ دکھائیں گے تو پھر بھی ان کی یہ کیفیت ہوگی۔ یہ پھر اسی طرح بصارت اور بصیرت کے لحاظ سے اندھے بن جائیں گے جس طرح پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے ان کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی کہ ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیں گے تو اس کے متعلق پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اسی اختیار پر انسان کا مواخذہ ہوگا۔ رہے ان اسباب کے نتائج تو نتائج پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا نتائج کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ اور عمل کرنے والوں کی طرف بھی اور قرآن میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔