سورة المآئدہ - آیت 107

فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ دونوں گناہ سے حق دبا گئے تو ان کی جگہ اور دو شخص ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کا حق دبا ہے ان میں سے جو قریب کے ہوں پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے زیادتی نہیں کی ورنہ ہم ظالموں میں سے ہوں گے ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥٥] اس واقعہ اور ان آیات کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ہر حال میں گواہی ٹھیک ٹھیک اور سچی ہی دینا چاہیے اور یہ مضمون قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر آیا ہے اور جھوٹی یا گول مول یا ہیرا پھیری کی شہادت کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے۔ جھوٹی شہادت کبیرہ گناہ ہے :۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟‘‘ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی‘‘ اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ’’خبردار! جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت۔ خبردار جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمات دہراتے ہی رہے۔ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائرواکبرھا)