سورة المآئدہ - آیت 87

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! ستھری چیزیں جو خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ‘ حرام نہ ٹھہراؤ اور حد سے نہ بڑھو ، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ (ف ٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣١] حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے والے گروہ اور اس کی صورتیں :۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے تمام اشیاء انسان کے لیے مباح اور حلال ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت کے متعلق شریعت نے وضاحت کردی ہو۔ اب اس آیت اور اس سے بعد والی آیت میں حلال اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے چند جامع اصول بیان کردیئے گئے ہیں اور یہ سب لاَ تَعْتَدُوْا کے ضمن میں آتے ہیں مثلاً (١) جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں انہیں عقیدتاً یا عملاً حرام نہ بنا لو۔ جیسے صوفی قسم کے لوگ نکاح سے عملاً اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ نکاح سے جو ذمہ داریاں انسان پر پڑتی ہیں۔ وہ عبادت الٰہی میں آڑے آتی ہیں۔ اس قسم کے لوگ عیسائیوں میں بھی موجود تھے اور مسلمانوں میں بھی موجود ہیں بلکہ ایسا رجحان صحابہ کرام میں بھی چل نکلا تھا۔ صوفی منش صحابہ میں سے ہی کسی نے کہا کہ میں ساری عمر نکاح نہ کروں گا اور کسی نے کہا میں ساری رات اللہ کی عبادت میں گزارا کروں گا۔ جس سے اپنے جسم کے، بیوی کے اور مہمانوں کے سب کے حقوق تلف ہوتے تھے اور کسی نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کو سخت تنبیہ کی اور فرمایا ’’میں اللہ کا رسول اور تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور میں نے نکاح کیے ہیں۔ میں رات کو سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، یہی میرا طریقہ ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) دوسری صورت یہ ہے کہ جسم کو جتنی غذا کی ضرورت ہے اس سے بھی کم یا بہت کم کھائے یا مرغوب اشیاء سے پرہیز کرے۔ یہ چیز بھی صوفی طبقہ میں ہی پائی جاتی ہے۔ جن کا نظریہ یہ ہے کہ جسم کو جس قدر مضمحل اور نحیف و نزار بنایا جائے اسی قدر روح کو تقویت ہوگی۔ رہبانیت کا نظریہ بھی سنت نبوی کے سراسر خلاف ہے۔ حد سے بڑھنے کی تیسری صورت بسیار خوری ہے۔ جیسے فرمایا ﴿وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ﴾ اور اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ان باتوں میں مبتلا ہوگا وہ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھے گا۔ نیز بسیار خوری سے انسان جہاں اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے وہاں کئی طرح کے جسمانی عوارض و امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور اعتداء کی چوتھی صورت یہ ہے کہ چیز تو حلال ہو مگر انسان کمائی کے ذریعہ اسے حرام بنا لے۔ جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، سود اور دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کیا ہوا مال۔ اور یہ بھی ﴿لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ﴾ کے ضمن میں آتا ہے۔ اور یہود کی اکثریت انہی امراض میں مبتلا تھی۔