لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
بےشک وہ کافر ہوگئے جو کہتے ہیں کہ اللہ جو ہے وہ مسیح بن مریم علیہا السلام ہی ہے (ف ١) اور مسیح (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے جس نے خدا کا شریک ٹھہرایا خدا اس پر جنت حرام کریگا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا ۔
[١١٩] الوہیت مسیح اور سیدنا عیسیٰ کی تعلیم :۔ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے مختلف عقائد ہیں۔ کچھ انہیں عقیدہ تثلیث کا جزو یا تین خداؤں میں کا ایک مانتے ہیں۔ کچھ انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اور کچھ انہیں اللہ ہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں اللہ نے حلول کیا اور وہ اللہ ہی کا مظہر تھے۔ ان تینوں اقوال میں جو چیز قدر مشترک ہے وہ الوہیت مسیح کا عقیدہ ہے۔ یعنی سب فرقے انہیں کسی نہ کسی رنگ میں الٰہ مانتے ہیں اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ عیسیٰ علیہ السلام تو خود کہتے تھے کہ’’صرف اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے‘‘ یعنی وہ خود اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ ’’میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اس کا بندہ ہوں‘‘ اب جو شخص کسی کا بندہ ہو، وہ اس کا شریک نہیں ہوسکتا اور جو شریک ہو وہ اس کا بندہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عقل کے ناخن لو اور انہیں اللہ کا شریک بنانے سے باز آجاؤ۔ کیونکہ جو شخص بھی کسی کو اللہ کا شریک بنائے گا اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا پڑے گا۔ پھر انہیں وہاں نہ عیسیٰ علیہ السلام بچا سکیں گے اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص ان کی کسی طرح سے مدد کرسکے گا۔