وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین سے دوستی رکھتا ہے تو جو اللہ کے گروہ کے لوگ ہیں وہی غالب رہیں گے (ف ١)
[٩٩] غلبہ صرف سچے مومنوں کو ہوگا :۔ یعنی مسلمانوں کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ ان کے حقیقی خیر خواہ صرف وہ مسلمان ہی ہو سکتے ہیں جو سچے مسلمان ہیں۔ فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کی صورت حال یہ تھی کہ کفار کے مقابلہ میں تعداد میں کم تھے۔ ان کے معاشی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ فتح خیبر میں اموال غنیمت میں بہت سے کھجوروں کے درخت مسلمانوں کے حصہ میں آئے تو یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کو سیر ہو کر کھانے کو کھجوریں ملیں اور مہاجروں نے انصار کے وہ کھجوروں کے درخت واپس کیے جن میں وہ محنت کرتے تھے اور عوضانہ کے طور پر نصف پیداوار لیا کرتے تھے۔ سیاسی حالات بھی کچھ ایسے تھے کہ تمام اہل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا ہے یا کفر غالب آتا ہے؟ یہود، مشرکین، عیسائی، اور دیگر قبائل عرب سب نے مل کر مسلمانوں کو سخت پریشان کر رکھا تھا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بطور تسلی یہ یقین دلا رہے ہیں کہ کفار سے دوستانہ مراسم رکھنے سے پوری طرح اجتناب کرو اور دوستی اور محبت صرف ان لوگوں سے رکھو جو اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے سچے مسلمان ہیں اور کامیابی اور غلبہ یقیناً تمہیں ہی حاصل ہوگا۔ [٩٩۔ الف] کافروں منافقوں اہل کتاب سب سے دوستی کی ممانعت :۔ اس آیت میں مکرر سہ کرر مسلمانوں کو اس بات کی تاکید اور تاکید مزید کی جا رہی ہے کہ اہل کتاب ہوں یا دوسرے کافر و مشرک ہوں، جو لوگ بھی اللہ کا، اللہ کے رسول کا، اللہ کی آیات کا اور اللہ کے دین کی دوسری باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان میں سے کسی سے کبھی دوستی نہ گانٹھو۔ ایسے لوگ کبھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ایسے لوگوں سے متعلق پہلے احکام گزر چکے ہیں کہ جہاں یہ لوگ ایسی مجلس لگائے ان خرافات میں مشغول ہوں وہاں تم ہرگز نہ بیٹھا کرو۔ الا یہ کہ تم میں اتنی قوت ہو کہ تم ان کو زور بازو یا دلیل کی قوت سے روکنے کی کوشش کرو۔