سورة المآئدہ - آیت 49

وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تو ان کے درمیان خدا کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ چل اور ان سے بچتا رہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی بات پر جو خدا نے تجھ پر نازل کی ہے ‘ تجھے بہکا دیں ، پھر اگر وہ نہ مانیں تو سمجھ لے کہ اللہ ان کے بعض گناہوں کے سبب کوئی مصیبت ان پر لانا چاہتا ہے اور البتہ لوگوں میں اکثر فاسق ہیں ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩١] حق کے لئے بہت بڑے فائدے سے دستبردار ہونا :۔ یہود کی آپس میں کسی مسئلہ میں نزاع کی صورت پیدا ہوگئی۔ ایک فریق میں ان کے بڑے بڑے علماء و مشائخ شامل تھے۔ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ آپ ہمارے اس نزاع کا فیصلہ کر دیجئے۔ پھر اگر آپ فیصلہ ہمارے حق میں کردیں تو ہم خود بھی اور اکثر یہود بھی ایمان لے آئیں گے کیونکہ یہود کی اکثریت ہمارے ہی زیر اثر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے رشوتی اسلام کو قبول نہ کیا اور ان کی خواہشات کی پیروی سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے اس دوران یہ آیت اس لیے نازل فرمائیں کہ کسی ایک فرد کا بھی اسلام لانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی محبوب تھا چہ جائیکہ یہود کی اکثریت کے ایمان لانے کی توقع ہو اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات ماننے کی طرف مائل ہوجائیں یعنی ایک بہت بڑے فائدے کے حصول کی خاطر ان کی بات مان لیں جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق پرستی کی خاطر اگر ہمیں کسی بہت بڑے متوقع فائدہ سے دستبردار ہونا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے اور ہر قیمت پر حق پر ہی قائم رہنا چاہیے۔