إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
ہم نے تورات نازل کی ، اس میں ہدایت اور نور ہے۔ یہودیوں کو اسی تورات کے موافق نبی (علیہ السلام) جو فرمانبردار تھے حکم دیا کرتے تھے اور اسی کے موافق درویش اور عالم حکم دیتے تھے کیونکہ وہ سب لوگ خدا کی کتاب کے نگہبان تھے اور اس پر گواہ ٹھہرائے گئے تھے پس (اے یہودیو) آدمیوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور تھوڑی قیمت (یعنی دنیا) میری آیتوں کے بدلے نہ لو اور جو کوئی خدا کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے ، وہی کافر ہیں۔ (ف ١)
[٨٠] یہودی مذہب الہامی نہیں :۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہودی مذہب کوئی الہامی مذہب نہیں۔ نہ ہی کتاب اللہ میں انہیں یہودی بننے کو کہا گیا تھا بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عقائد و اعمال میں بہت کچھ شامل کرلیا تھا اور اپنے آپ کو یہودی کہلانے لگے تھے اور اللہ نے جو کتاب تورات نازل کی تھی وہ ایک ایسا دستور العمل تھا جس کے مطابق تمام مسلمان (فرمانبردار) انبیاء خود بھی عمل پیرا تھے اور ان یہودیوں کے تنازعات کے فیصلے بھی اسی کتاب اللہ کے مطابق کیا کرتے تھے اور ان کے متقی علماء و مشائخ کا بھی یہی حال تھا کہ وہ اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ کی حفاظت کا کام انہیں لوگوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ یہ حفاظت دونوں صورتوں میں تھی ایک علمی دوسرے عملی۔ علمی حفاظت یہ تھی کہ نہ تو تورات کے الفاظ میں رد و بدل یا ترمیم و تنسیخ کی جائے اور نہ ہی ان آیات کو غلط مفہوم پہنایا جائے۔ اور عملی یہ تھی کہ اس پر ٹھیک طرح سے عمل کیا جائے اور فیصلے اسی کے مطابق کیے جائیں مگر بعد میں جب ناخلف علماء و مشائخ پیدا ہوئے تو انہوں نے تحریف معنوی بھی کی اور لفظی بھی۔ بعض آیات کو چھپایا اور بعض اضافے کتاب اللہ میں شامل کردیئے اور اس طرح کتاب اللہ کو بیچ کر کھانے لگے۔ یعنی عملی لحاظ سے بھی کتاب اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ [٨١] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ میں خطاب یہود کو ہے لیکن نفس مضمون کے لحاظ سے اس کا خطاب عام ہے جس میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ مسلمان بھی شامل ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ کتاب اللہ یا منزل من اللہ وحی کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کافروں کا کام ہوتا ہے مسلمانوں کا نہیں۔