وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا
اور خدا تم پر قرآن میں یہ بات نازل کرچکا ہے کہ جب تم خدا کی آیتوں کی نسبت انکار یا ٹھٹھا (ف ٢) سنو تو ان کے پاس نہ بیٹھو جب تک کہ دوسری بات میں مشغول ہوں ، ورنہ تم بھی ان کی مانند ہو گے ، بےشک خدا سارے منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرے گا ۔
[١٨٦] یہ حکم مکہ میں سورۃ انعام کی آیت نمبر ٦٨ میں نازل ہوا تھا جو یہ تھا کہ ’’جو لوگ ہماری آیات میں کج بحثیاں کرتے ہیں آپ ان سے الگ رہیے تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔‘‘ یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں علانیہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تضحیک اور استہزاء کیا جا رہا ہو یا سرے سے انکار ہی کیا جا رہا ہو اور وہ ایسی باتیں ٹھندے دل سے سن کر وہیں بیٹھے رہیں اور ان کی غیرت ایمانی کو ذرا بھی حرکت نہ ہو تو ان میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے، ان کی زبانیں بند کر دے اور اگر دلائل سے انہیں حق بات کا قائل کرسکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتا تو کم از کم خود وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے جو شخص کوئی برا (خلاف شرع) کام ہوتا دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اسے مٹا دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی منع کر دے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر دل میں بھی برا نہ جانے تو سمجھ لے کہ اس میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔ واضح رہے کہ سورۃ انعام مکہ میں نازل ہوئی تھی اور مکہ میں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے کفار مکہ تھے اور یہ سورۃ نساء مدینہ میں نازل ہوئی، یہاں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے یہود مدینہ اور منافقین تھے گویا اللہ کے رسولوں، اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا ہر طرح کے کافروں کا پرانا دستور ہے۔