يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
مومنو ! تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو خدا نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے اس نے نازل کی تھی ایمان لاؤ ۔ اور جو اس سے پہلے اس نے نازل کی تھی ، ایمان لاؤ ۔ اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں کا اور آخری دن کا منکر ہوا وہ گمراہی میں بہت دور جا پڑا ۔ (ف ٢)
[١٨١] ایمان کے درجات :۔ اس آیت میں ایمان کا لفظ دو معنوں میں یا ایمان کے دو مختلف درجوں میں استعمال ہوا ہے۔ اٰمنوا کا مطلب یہ ہے، لوگو جو تم مومنوں کی جماعت میں شامل ہوچکے ہو۔ اور اٰمنوا کا مطلب یہ ہے کہ خلوص نیت سچے دل اور پختہ عزم اور سنجیدگی کے ساتھ ایمان لاؤ اور اپنی سوچ، اپنے عمل، اپنے رویہ، اپنے نظریات، اپنے مذاق، اپنے کردار، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی اغراض، اپنی جدوجہد غرض ہر چیز کو اس عقیدے کے مطابق بناؤ جس پر تم ایمان لائے ہو۔ تب ہی تم میں انصاف پر قائم رہنے کی صفت پیدا ہو سکے گی۔ [١٨٢] قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کتاب یا کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ فی الواقع وہ کتاب بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ مواد ان میں آج کل پایا جاتا ہے وہ سب کچھ منزل من اللہ ہے اس آیت میں اور اسی طرح دیگر متعدد آیات میں ایمان بالغیب کے پانچ اجزا کا ذکر آیا ہے جو یہ ہیں اللہ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اس کے فرشتوں پر اور آخرت کے دن پر بن دیکھے ایمان لایا جائے۔ یعنی ان پر پختہ یقین رکھا جائے۔ ایمان بالغیب کا چھٹا جزو تقدیر پر ایمان ہے یعنی ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ عقیدہ بھی قرآن ہی کی متعدد آیات سے مستنبط ہے۔ اگرچہ اس آیت میں مذکور نہیں۔ [١٨٣] کفر کے درجے :۔ جس طرح پہلی آیت میں ایمان کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے اسی طرح اس آیت میں کفر کا لفظ بھی دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک یہ کہ سرے سے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہی نہ ہو اور ان سب امور مذکورہ کا انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے مسلمانوں میں شامل تو ہوجائے لیکن جو اثرات اس عقیدہ کے اس کی طبیعت پر مترتب ہونا چاہیے تھے وہ نہ ہوں۔ نہ ہی وہ اپنے طریق زندگی کو شرعی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ ایسا ایمان بھی کچھ فائدہ نہ دے گا اور یہ سراسر گمراہی ہے۔