سورة النسآء - آیت 132

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اللہ کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور اللہ کارساز کافی ہے ۔ (ف ٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧٥] شرعی احکام انسانوں کی مصالح پر مبنی ہیں :۔ ان آیات ١٣٠ تا ١٣٢ میں تین بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے ﴿ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ اور تینوں دفعہ اس کا استعمال الگ الگ مقصد کے لیے ہوا ہے۔ پہلی بار سے کشائش اور وسعت مقصود ہے یعنی اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ کیونکہ آسمانوں اور زمین کی ایک ایک چیز اسی کی ملکیت ہے، اگر کسی جوڑے میں حالات کی ناسازگاری کی بنا پر جدائی ہوگئی ہے تو اللہ ان دونوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرسکتا ہے کیونکہ ہر طرح کے اسباب و وسائل پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے۔ دوسری بار یہ جملہ ایک دوسرے مدلول کی دلیل کے طور پر آیا ہے جو یہ ہے کہ یہ اللہ کی خاص مہربانی اور فضل ہے کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی اور خاص تمہیں بھی شریعت نازل فرما کر ان احکام پر عمل کرنے اور اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا اور شریعت کے یہ تمام احکام تمہارے ہی دینی اور دنیوی مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں تمہارا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ واجب کردیئے جاتے ہیں اور جن کاموں میں تمہارا نقصان ہوتا ہے وہ حرام کردیئے جاتے ہیں اب اگر تم ان احکام پر عمل کرو گے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور اگر نہ کرو گے تو اس میں تمہیں ہی نقصان پہنچے گا۔ اللہ کا نہ تمہاری اطاعت سے کچھ سنورتا ہے اور نہ تمہاری نافرمانی سے کچھ بگڑ سکتا ہے اس لیے کہ پوری کائنات کا مالک تو وہ پہلے ہی ہے۔ لہٰذا وہ تمہاری فرمانبرداری یا نافرمانی سے بے نیاز ہے اور اس کے کارنامے ایسے ہیں جو خود اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا خالق مالک اور منتظم فی الواقع مستحق حمد ہے، تمہارے اس کی حمد کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔