لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
معاملہ نہ تو مسلمانوں کی آرزو کے موافق ہوگا نہ اہل کتاب کی آرزو کے موافق جو کوئی بدی کریگا اس کی سزا پائے گا اور اپنے لئے خدا کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہ پائے گا ۔ (ف ١)
[١٦٣] سستی نجات کا عقیدہ :۔ شیطان جن راہوں سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر ''سستی نجات کا عقیدہ'' ہے۔ تو اس میدان میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہی ہوں گے جنہوں نے پیروں کی سفارش کے علاوہ اس دنیا میں بھی بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو شخص اس دروازے سے اس پیر کے عرس کے دن گزر گیا وہ بہشتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ راہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزا و سزا ہے۔ یہ قانون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس قانون کی قابل ذکر دفعات یہ ہیں : (١) قانون جزاء وسزاء کی دفعات :۔ ہر انسان کو صرف وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، برے عمل کا بدلہ برا ہوگا اور اچھے عمل کا اچھا۔ (٢) جزا و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں (٣) اگر کسی نے چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی کی ہوگی تو بھی اس کا اسے ضرور بدلہ ملے گا اللہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ کسی کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ (٤) قیامت کے دن کوئی بھی شخص خواہ وہ اس کا پیر ہو یا کوئی قریبی رشتہ دار ہو دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (٥) یہ ناممکن ہے کہ زید کے گناہ کا بار بکر کے سر ڈال دیا جائے (٦) شفاعت کے مستحق صرف گناہگار موحدین ہوں گے وہ بھی ان شرائط کے ساتھ کہ اللہ جس کے حق میں خود سفارش چاہے گا اسی کے حق میں کی جا سکے گی اور جس شخص کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا صرف وہی سفارش کرسکے گا۔ اس قانون کے علاوہ نجات کی جتنی راہیں انسان نے سوچ رکھی ہیں، وہ سب شیطان کی بتلائی ہوئی راہیں ہیں۔ ان کا کچھ فائدہ نہ ہوگا البتہ یہ نقصان ضرور ہوگا کہ انسان ایسی امیدوں کے سہارے دنیا میں گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ قیامت کے دن لوگوں کے ایسے من گھڑت سہارے کسی کام نہ آ سکیں گے جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکیں۔