سورة الشمس - آیت 8

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری کی اس کو سمجھ دی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] الہام اور وحی کا فرق :۔ فَاَلْھَمَھَا : الہام کے معنی وہ بات ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملاء اعلیٰ کی جانب سے بغیر کسی واسطہ کے دل میں ڈال دی جائے اور بمعنی سمجھ اور بصیرت عطا فرمانا۔ توفیق دینا، الہام شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ نصوص شرعیہ کے خلاف ہو۔ وحی اور الہام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ الہام کا اطلاق صرف ذوی العقول پر ہوتا ہے جبکہ وحی عام ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ الہام کا تعلق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ جبکہ وحی میں بہت زیادہ وسعت ہوتی ہے۔ الہام کی تین صورتیں :۔ الہام کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو وہ ہے جسے ہم فطری وحی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کے چوزے کو پیدا ہوتے ہی ہوا میں اڑنا سکھا دیا ہے یا مچھلی کو پانی میں تیرنا یا شہد کی مکھی کو چھتہ جیسا حیرت انگیز گھر بنانا سکھا دیا یا انسان کے بچہ کو ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکنا اور دودھ چوسنا سکھا دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ فطرت میں یہ باتیں نہ رکھتا تو پیدا ہونے والے نادان بچے کو ایسی باتیں سکھانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ الہام کی دوسری صورت کسی ایسی بات کا یکدم سوجھ جانا ہے جو انسان کی ذہنی کاوش کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ سائنس کے جتنے اکتشافات اور ایجادات ہوئی ہیں۔ وہ انسانوں کی ذہنی کاوش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ایسے ہی الہام کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہیں۔ الہام کی تیسری صورت کا تعلق صرف اخلاقیات سے ہے اور یہی اس آیت میں مذکور ہے یعنی ہر انسان کی فطرت میں خیر و شر کی تمیز رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کا ضمیر انسان کو ہر وقت متنبہ بھی کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات اسے برا کام کرنے پر سخت ندامت محسوس ہوتی ہے اور کسی سے بھلائی کرکے انسان خوش ہوتا ہے۔ یہ احساس و امتیاز ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصور سے خالی نہیں رہا ہے۔