سورة النبأ - آیت 1
عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ
ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی
لوگ آپس میں کس چیز کے متعلق سوال کرتے ہیں
تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
[١] کفار مکہ کے نزدیک قیامت کا تصور اور نظریہ ایک عجوبہ چیز تھی۔ جب قرآن نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ قیامت فی الواقع آنے والی ہے اور تمہیں تمہارے مٹی میں گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے تمہارے اعمال کی باز پرس کی جائے گی تو اس کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے سامنے آپس میں ہی گفتگو کرتے کہ بھئی یہ قیامت کیا بلا ہے؟ ہم مٹی میں مل جانے کے بعد کیونکر زندہ ہوسکتے ہیں؟۔ آج تک تو کوئی مرا ہوا زندہ ہوا نہیں۔ پھر یہ کیسی انہونی بات ہے اور یہ آئے گی کب؟ یہی وہ سوالات تھے جو ان کی دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ وہ مسلمانوں سے بھی، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اور آپس میں بھی ایسے سوالات کرتے رہتے تھے اور اس بات سے ان کا مقصد مسلمانوں کو چڑانا ہوتا تھا۔