هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
کچھ شک نہیں کہ زمانہ میں سے انسان پرایک ایسا وقت آچکا ہے (جب) کہ وہ کوئی چیز نہ تھا کہ اس کا ذکر کیا جاتا
[١] دہر کا لغوی مفہوم 'دہر اللہ کی ذات ہے :۔ دھر بمعنی زمانہ کائنات، مدت عالم، جب سے کائنات شروع ہوئی اس وقت سے لے کر اس کے اختتام تک کا وقت (مفردات) اور ابن الفارس کہتے ہیں کہ دھر میں غلبہ اور قہر کا مفہوم پایا جاتا ہے اور دہر کا یہ عالم اس لیے ہے کہ وہ ہر چیز پر اضطراراً گزرتا اور اس پر غالب آتا ہے۔ (مقائیس اللغۃ) اور دہر کا تعلق مشیئت الٰہی سے ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”لا تسبوا الدھر فان اللہ ھوالدھر “یعنی دہر کو برا بھلا نہ کہہ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دہر ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لا تسبوا الدھر) اور دہری وہ شخص ہے جو کائنات کی تخلیق کا قائل نہیں بلکہ اسے ابدالاباد سے شمار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی صانع نہیں بس یہ آپ سے آپ اتفاقات کے نتیجہ میں وجود میں آگئی تھی۔ اس آیت میں یہ بتایا جارہا ہے کہ انسان پر ایسا وقت بھی گزر چکا ہے جبکہ بنی نوع انسان کی ابھی تخلیق ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اس کا نام و نشان تک صفحہ ہستی پر موجود نہ تھا۔ پھر کتنے ہی دور اور طور طے کرنے کے بعد یہ نطفہ کی شکل میں آیا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب انسان نطفہ کی حالت میں تھا تو اس کی موجودہ شرافت و کرامت کے مقابلہ میں اس کی وہ حالت اس قابل ہی نہیں تھی کہ اسے زبان پر لایا جائے۔